اس موضوع کی مخالفت میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ پراپرٹی ایک immovable asset ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں کی جا سکتی اسلئے اس کو commodities میں شمار کرنا اکنامکس کے حوالے سے درست نہیں
لیکن دنیا بھر میں commodity کی تعریف یہ ہے کہ جس شے کو کلو گرام میں یا میٹر میں بیچا یا خریدا جا سکے اور جس کے نرخ ہر گھنٹے یا منٹ یکساں نہ رہتے ہوں ، وہ commodity کہلاۓ گی
تو کیا دنیا بھر کے ترقی یافتہ ملکوں میں پراپرٹی کو ماپنے کا پیمانہ میڑ نہیں ہے ؟
کراچی میں گزوں میں اور اسلام آباد میں میٹروں میں پراپرٹی کے سودے ہوتے ہیں
لاہور میں مرلوں کنالوں میں بات کی جاتی ہے لیکن فالتو زمین کے لئے feets ہی لکھا اور بولا جاتا ہے ایک زمانہ تھا کہ جب سالوں پاکستان میں پراپرٹی کے نرخ ایک طرح کے رہتے تھے لیکن اب ایسا کہاں ہے
ڈی ایچ اے اور بحریہ ٹاؤن اور بے شمار ماڈرن آبادیوں میں پلاٹس اور پراپرٹی کے ریٹس صُبح کچھ ہیں شام کچھ ، آج ایک پلاٹ تین کروڑ کا ملتا ہے تو اگلے روز بغیر کسی وجہ کے ساڑھے تین کروڑ کا ۔
اسلئے ضروری ہے کہ نئے اکنامک آرڈر کو سمجھتے ہوۓ ہمیں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو فی الفور commodities میں داخل کر دینا چاہئیے وہ دن گذر گئے جب پراپرٹی یا گھر، صرف اپنے رہنے کے لئیے یا ذاتی برتنے کے لئے استعمال ہوتا تھا اب تو یہ عام بات ہے کہ پراپرٹی خریدی ہی اس لئیے جاتی ہے کہ اچھے منافع کے ساتھ اس فروخت کر دیں جاۓ
پڑھنے والے اپنی راۓ دے سکتے ہیں