Card image cap

Real Estate Assessment and Taxation

میں نے وزیر ِ خزانہ کی بجٹ تقریر سننے کے بعد   2022/23 کا  فنانس بل  جو دو سو تیس صفحات پر  مشتمل ہے،   کا  بغور  مطالعہ کیا   کیونکہ مجھے محسوس ہوا  کہ ہمارے وزیر خزانہ نے اپنی  بجٹ تقریر میں  رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے حوالے سے بہت سی باتوں کا  شاید مصلحتاً ذکر نہیں کیا ہے  جو فنانس بل میں  ایف بی آر کی طرف سے سفارش کی گئی ہیں   چنانچہ  مکمل فنانس بل پڑھنے کے بعد جو باتیں  اور تاثرات  رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے حوالے سے میرے سامنے آۓ ہیں  وہ میں آپ سے شئیر کر رہا ہوں

اس بجٹ پر میرا پہلا feedback یہ ہے  کہ موجودہ حکومت رئیل سٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاروں کی انوسٹمنٹس کو پسندیدگی سے نہیں دیکھ رہی   اور اس حکومت کا خیال ہے کہ ہمارے انویسٹرز کو  اپنی انوسٹمنٹس  دوسرے productive   شعبوں  میں کرنی چاہئیں  کیونکہ اسوقت ہمارا کئی  trillion rupees  پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں پارک  ہے جبکہ پاکستان کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ  400 بلین ڈالر کو  کراس کر رہی ہے

 

بجٹ پر اپنی بات شروع کرنے سے قبل میں یہ بھی بتا دوں  کہ چئیرمین ایف بی آر  عاصم احمد نے بجٹ کے فوراً بعد یہ انکشاف کیا ہے کہ یکم جولائی سے ملک بھر میں جائیداد کی خرید و فروخت  اور زمینوں اور جائیداد سے ٹیکس وصولی صرف ایف بی آر ریٹس کے مطابق ہو گی جسے فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے  فئیر مارکیٹ ویلیو کا نام دیا ہے اس حکومتی اقدام سے جائیداد پر ڈی سی ریٹس سے ٹیکس وصولی کے پچھتر سالہ پرانے نظام  کا خاتمہ ہو جائیگا

آئیے اب نئے بجٹ پر بات کرتے ہیں 
نئے وفاقی بجٹ  میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے حوالے سے پراپرٹی کا ذکر  16  جگہوں پر کیا گیا ہے  جن کا خلاصہ یا  brief summary میں ان 10  پوائنٹس میں  آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں  

1- پاکستان میں رہنے والے  جن لوگوں نے دوسرے ممالک میں اپنی پراپرٹیز خرید کر رکھی ہوئی ہیں  اگر ان کی مالیت دس کروڑ روپے سے زیادہ ہے  تو ان پراپرٹیز کی قیمت  کا ایک فیصد کیپٹل ویلیو ٹیکس ان کو اپنے سالانہ گوشواروں میں ہر سال جمع کروانا ہو گا خواہ وہ پراپرٹیز کسی بھی مقصد کے لئے دُنیا کے کسی بھی مُلک میں خریدی گئی ہوں

2-  ہر پاکستانی شہری کو  پاکستان  میں اپنے نام پر رجسٹرڈ  پراپرٹی ، خواہ وہ گھر ہے بلڈنگ ہے پلاٹ ہے فارم ہاؤس ہے ، زرعی رقبہ ہے,  جو بھی ہے اور اس کی مجموعی قیمت ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ ہے  تو اس کی yield یعنی  آمدنی پر  ہر سال بیس فیصد ٹیکس جمع کروانا ہو گا ماسوا اس گھر  کے جس میں اس کی ذاتی رہائش ہے یا ان  پراپرٹیز کے جن میں اس کا کاروبار ہے جیسے  آفس بلڈنگز ، فیکٹریز،  وئیر ہاؤسز وغیرہ وغیرہ ان کے علاوہ اگر کوئی پراپرٹی اس کے نام پر ہے تو اس پراپرٹی پر  یہ نیا ٹیکس عاید ہو گا  مثال کے طور پر میرے پاس ذاتی گھر اور بزنس کے لئیے مخصوص  پراپرٹیز  کو نکال کر  باقی جو پراپرٹیز ہیں اور  ان کی مالیت ایف بی آر ریٹ  کے مطابق اگر   دس کروڑ روپے  بنتی ہے   تو  دس کروڑ کے پانچ فیصد یعنی پچاس لاکھ پر مجھے بیس فیصد ٹیکس کے حساب سے دس لاکھ کا یہ نیا ٹیکس ہر سال جمع کروانا ہو گا  اس بات سے قطع نظر  کہ مجھے آمدنی ہے یا نہیں  یہ ٹیکس بہر صورت لاگو ہو گا اور  اسی لئیے اسے deemed tax  یا  فرضی آمدنی کے ٹیکس کا نام دیا گیا ہے
اس ٹیکس کے حوالے سے بعض پراپرٹی مالکان کا خیال ہے کہ انہیں اس سے فرق نہیں پڑے گا ان کا کہنا ہے کہ گورنمنٹ نے یہ اعلان کیا ہے کہ جس پراپرٹی کی مالیت ڈھائی کروڑ  سے زیادہ ہے یہ ٹیکس اس پر لاگو ہو گا  لیکن اگر  شخص کوئی  ایسی پراپرٹیز اور پلاٹس  کا مالک  ہے جن کی قیمت ڈھائی کروڑ سے کم ہے تو وہ ٹیکس کے دائرے میں نہیں آۓ گا تو مجھے انہیں یہ کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے  فنانس بل اور بجٹ میں اس کے لئے aggregate کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی پراپرٹی کی مجموعی تعداد  کی قیمت پر یہ ٹیکس لگے گا مثال کے طور پر  اگر آپ کے پاس تین پراپرٹیز ہیں جن میں ایک  پلاٹ ہے اس کی قیمت ایک کروڑ ، دوسری پراپرٹی جو فلیٹ ہے اس کی قیمت ڈیڑھ کروڑ  اور تیسرا جو مکان ہے اس  کی قیمت دو کروڑ روپے ہے تو آپ کی پراپرٹیز کی مجموعی قیمت ساڑھے چار کروڑ روپے بنے گی اور ان پورے ساڑھے چار کروڑ  پر آپ کو ٹیکس دینا ہو گا یہ نہیں ہو گا کہ ساڑھے چار کروڑ میں سے ڈھائی کروڑ مائنس کر کے بقایا دو کروڑ پر آپ ٹیکس دیں 
ایف بی آر کو یقین ہے کہ ایسا ٹیکس لگانے سے  حکومتی خزانے کو  سالانہ 30 ارب روپے حاصل ہوں گے


3- جن پراپرٹی مالکان نے already اپنی پراپرٹیز کراۓ پر دی ہوئی ہیں  وہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ اگر ان کی ایک پراپرٹی کا کرایہ مثال کے طور پر  ایک لاکھ روپیہ ماہانہ یا بارہ لاکھ روپے سالانہ  آ رہا ہے اور  کراۓ کی یہ رقم  پراپرٹی کی ایف  بی آر  ویلیو کے پانچ فیصد سالانہ سے کم ہے  تو  پراپرٹی کے مالک  کو  نئے ٹیکس رولز کے مطابق بقایا رقم اپنی جیب سے ڈال کر  ٹیکس پورا کرنا ہو گا  ایسے تمام پراپرٹی مالکان جنہوں نے اپنی پراپرٹیز پہلے سے کراۓ پر دی ہوئی ہیں  اپنی پراپرٹیز  کی ویلیو ایف بی آر ریٹس کے مطابق دوبارہ  نکال لیں  اب جو بھی قیمت ان کی پراپرٹی کی بنتی ہے  اس کا پانچ فیصد  ان کی پراپرٹی کا کرایہ لازمی ہونا چاہئیے  اگر یہ کرایہ  اس سے کم ہے  تو سمجھئیے کہ وہ آگے چل کر خسارے میں رہیں گے  اور اگر وہ پراپرٹی کی موجودہ ویلیو کے پانچ فیصد  سے زیادہ کرایہ وصول کر رہے ہیں تو پھر خطرے کی کوئی بات نہیں اور ان کی سالانہ رینٹل انکم محفوظ ہے
یاد رہے  ان کی سالانہ رینٹل  انکم پر  جو ٹیکس کٹوتی slabs کے مطابق  پہلے ہوتی تھی وہ اب بھی ہو گی

4- ایسے بلڈرز اور ڈویلیپرز  جن کے  نام پر ہزاروں سینکڑوں کنال زمین ہے اور جسے انہوں نے NBFP سے رجسٹرڈ کروایا ہُوا ہے تو انہیں اس ٹیکس سے exemption حاصل ہو گی  بقیہ تمام بلڈرز اور  ڈویلیپرز  کی جائیداد پر اس ٹیکس کا اطلاق ہو گا

5- ایف بی آر کی طرف سے فنانس بل 2022میں تجویز دی گئی ہے کہ اگر کوئی فرد نئے گھر کے حصول یا تعمیر کے لیے حاصل کیے گئے قرض کی ادائیگی میں کوئی منافع ادا کرتا ہے تو اس پر قابل کٹوتی الائونس پر ٹیکس کریڈٹس واپس لیے جائیں،

ایف بی آر حکام کا خیال ہے  کہ ٹیکس کریڈٹس واپس لینے اور استثناء فہرست سے الائونسز ختم کرنے سے 4 سے 5 ارب روپے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

6-  نئی جائیداد کی خریداری پر خریدار کو اگر وہ  ٹیکس گزار ہے تو دو فیصد ایڈوانس ٹیکس جسے withholding tax  بھی کہا جاتا ہے جمع کروانا  ہو گا  اور اگر وہ سالانہ ٹیکس ریٹرنز جمع نہیں کرواتا  تو اسے پانچ فیصد ایڈوانس ٹیکس جمع کروانا ہو گا

7- جائیداد بیچنے پر ہر سیلر کو دو فیصد ایڈوانس ٹیکس دینا پڑے گا اگر اس جائیداد پر اس کی  ملکیت دس سال یا اس سے کم ہے  ،، اور اگر وہ پراپرٹی دس سال سے زیادہ  سے اس کی ملکیت میں ہے تو وہ اس سے مثتثنا ہو گی پہلے دورِ حکومت میں یہ  حدِ ملکیت چار سال تھی جو اب بڑھا کر دس سال کر دی گئی ہے

اس طرح ایف بی آر کو اس مد میں 65 ارب روپے آمدنی  ہو گی

8- پراپرٹی بیچنے والے کو  پندرہ فیصد گین ٹیکس ادا کرنا ہو گا 
لیکن جس پراپرٹی مالک کی ملکیت کی مدت چھ سال یا اس سے زیادہ ہے تو پھر وہ اس نئے ٹیکس نظام سے محفوظ ہے اور اُس پر یہ ٹیکس لاگو نہیں ہو گا
اور یہ پندرہ فیصد گین ٹیکس اسے اسوقت ادا کرنا ہو گا اگر وہ ملکیت کے پہلے ہی سال میں اپنی پراپرٹی فروخت کرے  اور اگر وہ پراپرٹی کی ملکیت حاصل کرنے کے دوسرے سال اسے بیچتا ہے تو اسے ساڑھے بارہ فیصد گین ٹیکس دینا ہو گا اور اگر وہ ملکیت کے تیسرے سال میں بیچے گا تو اسے دس فیصد گین ٹیکس دینا ہو گا
چوتھے سال ساڑھے سات فیصد پانچویں سال پانچ فیصد چھٹے سال ڈھائی فیصد گین ٹیکس دینا  ہو  گا اساتویں سال اور اس کے بعد کے سالوں میں پراپرٹی پر سے گین ٹیکس نہیں لیا جاۓ گا 
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ ٹیکس پراپرٹی کی جس قسم پر عاید ہوا ہے اسے پلاٹ کہتے ہیں پلاٹس کے علاوہ گھروں اور اپارٹمنٹ پر گین ٹیکس کی شرح اور ہے جسے سامنے دے گئے  ٹیبل چارٹ سے سمجھا جا سکتا ہے

اس ٹیبل چارٹ  کو  کلوز اپ میں  دیکھئے یا ڈاؤن لوڈ کیجئیے

 

9-   گورنمنٹ  افسران یا سرونگ و ایکس آرمی افسران  اگر اپنا  پہلا پلاٹ  ملکیت کے پہلے تین سال میں بیچتے ہیں تو انہیں گین ٹیکس میں پچاس فیصد رعائیت ہو گی اور اگر وہ تین سال کے بعد اور چھہ سال کے اندر بیچتے ہیں تو انہیں گین ٹیکس میں %75 رعائیت ہو گی

10-  ہمارے ملک میں رئیل اسٹیٹ انوسٹمنٹ ٹرسٹ جنہیں REAT کہا جاتا ہے پاکستان میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر کی کامیابی کی روشن مثال بن چکے ہیں حکومت نے اس رجحان کو اور زیادہ عام کرنے کے لئے ریٹ کے انوسٹرز کو دئیے جانے والے dividends پر ٹیکس کٹوتی تین فیصد کم کر کے آٹھ فیصد  سے پانچ فیصد کرنے کا فیصلہ کیا ہے

 

آخر میں یہ ویڈیو دیکھنے والوں کو  میں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو یعنی FBR کی یہ ذمہ داری ہے کہ  ملک میں ریونیو اکٹھا کرنے کے لئیے
وہ پلاننگ کرےاور  نئی تجاویز پیش کرے  چنانچہ وہ اپنی تجاویز اور اپنی پلاننگ کو فنانس بل کی صورت میں منسٹری آف فنانس کو بھیجتا ہے جہاں منسٹری آف فنانس اس بل میں چیدہ چیدہ مطلب کی باتیں نکال کر  اپنا بجٹ ترتیب دیتی ہے اور قومی اسمبلی میں پیش کرتی ہے جہاں سے پاس ہو کر یہ سینیٹ میں جاتا ہے اور سینیٹ سے پاس ہو کر صدر مملکت کی منظوری اور دستخط کے بعد اسے ایک آئینی اور قانونی دستاویز کے طور دوبارہ ایف بی آر بھیج دیا جاتا ہے 
جہاں سے ملک بھر میں ایک قانون کی صورت میں اس پر عمل درآمد کروایا جاتا ہے
اب بجٹ پیش ہو چکا ہے ایف بی آر کے چئیرمین  عاصم احمد  فاننس بل پر سینیٹ  کی قائمہ کمیٹی براۓ فائنانس کو بریفنگ دے چکے ہیں لیکن ابھی بل کی منظوری میں کافی مراحل باقی ہیں  اسلئے میں یہ ویڈیو دیکھنے والوں کو ایڈوائس کروں گا کہ وہ  کم سے کم دو ہفتے یا دس جولائی تک پراپرٹی کی کسی خرید و فروخت یا لیز ایگریمنٹ سے خود کو دور رکھیں اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ممکن ہے کہ ان کی ٹرانزکشن کسی مشکل یا conflict کا شکار نہ  ہو جاۓ
اگر آپ کو وفاقی بجٹ کے حوالے سے مزید کوئی بات سمجھنی ہے یا آپ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے حوالے سے  کسی مشکل سے دوچار ہیں یا آپ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ  کی ڈویلپمنٹ کے حوالے سے اہم تجاویز رکھتے  ہیں  تو آپ  پاکستان کے چوٹی کے  رئیل اسٹیٹ اینالسٹس ، سپیشل اٹارنیز پراپرٹی لأ ، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس، ٹیکس کنسلٹنٹس،  آرکیٹکٹس اور عالمی شہرت کے رئیل اسٹیٹ انویسٹرز کے  کنسورشیم  سے درج ذیل ایڈریس پر رابطہ کر  سکتے ہیں۔

PROPERTICA PVT. LTD.
Lahore-Islamabad-Karachi-London
mail@ propertica.pk