پاکستان میں دفتری جگہوں (Office Space) کو کرایہ پر لینے کی نئی لہر، تین بڑے شہروں کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں جگہیں نایاب ہو گئیں قسط: 1 پری پینڈیمک دور میں پاکستان میں office space leasing بتدریج آگے بڑھ رہی تھی اور آئی ٹی (IT )“انفارمیشن ٹیکنالوجی” / آئی ٹی ای ایس (ITES) “انفارمیشن ٹیکنالوجی انیبلڈ سروسز” یعنی آئی ٹی کی مدد سے فراہم کی جانے والی خدمات ، جیسے کسٹمر سپورٹ، بیک آفس آپریشنز، ڈیٹا پروسیسنگ، اور وہ خدمات جو کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ کی مدد سے سرانجام دی جاتی ہیں، / “بزنس پراسیس آؤٹسورسنگ” (BPO) اور بی ایف ایس آئی (BFSI) - بینکنگ، فنانشل سروسز اور انشورنس سیکٹر دفتری جگہوں کی طلب میں اضافہ کا بڑا سبب تھے- ہمیں 2019 میں تین بڑے شہروں کراچی لاہور اور اسلام آباد میں 1.5 ملین اسکوئر فٹ کی لیزنگ دیکھنے کو ملتی تھی لیکن پینڈیمک میں جب گھروں میں بیٹھ کر کام کرنے کا تصور remote work بڑھا تو بہت سی بلڈنگز خالی ہونا شروع ہوئیں اور یوں کرایوں میں نمایاں کمی آتی چلی گئی اور ایک وقت آیا کہ لاہور میں 50 سے 80 روپے اسکوئر فٹ ، کراچی میں 100 سے 125 روپے اسکوائر فٹ اور اسلام آباد میں 150 سے 200 روپے اسکوائر فٹ پر دفتری جگہیں ہنس کر دستیاب تھیں 2022 میں ایک بار پھر لیزنگ کی قیمت بڑھی کہ جب پینڈیمک کے بعد ریموٹ ورک اور فری لانسنگ کے رجحانات نے co-working space کے بزنس کو آگے بڑھایا اور آج ان تین شہروں میں لگ بھگ 200 سے زائد کمپنیاں اس کاروبار سے وابستہ یہ کام کر رہی ہیں اور جن کی وجہ سے دفتری جگہوں کی مانگ میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے آج لاہور میں 150 سے 200 روپے سکوائر فٹ کراچی میں 200 سے 300 روپے سکوائر فٹ اور اسلام آباد میں 300 سے 800 روپے سکوائر فٹ پر جگہیں لیز کے لئیے دستیاب ہیں 2024 کی پہلی سہ ماہی کے لیے آنے والے یہ اعدادوشمار جو ہمارے آفس کی سروے ٹیم نے تیار کیے ، دن بدن مضبوط ہو رہے ہیں۔ اور نظر آ رہا ہے کہ ٹیکنالوجی سیکٹر مجموعی لیزنگ میں سب سے بڑا کردار ادا کرنے جا رہا ہے جیسا کہ میرے علم میں ہے کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی پاکستان میں اپنا پہلا جی سی سی (Global Capability Centers) قائم کرنے کا سوچ رہی ہے۔ اگر ایسا ہُوا تو سوچئیے کہ ہماری رئیل اسٹیٹ مارکیٹ کہاں کھڑی ہو گی جی سی سی (Global Capability Centers) دراصل بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے وہ مراکز ہوتے ہیں جو مختلف ممالک میں قائم کیے جاتے ہیں تاکہ وہ اس ملک میں اور آس پاس کے خطّے میں اپنی خدمات، تحقیق، اور ترقیاتی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ یہ مراکز کمپنی کی عالمی سطح پر کاروباری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ضروری علم، مہارت اور صلاحیتوں کو اس ملک کی افرادی قوت اور وسائل سے حاصل کرتے ہیں۔ شروع میں، جی سی سیز GCCs عموماً سادہ بیک آفس آپریشنز جیسے ڈیٹا انٹری، کسٹمر سپورٹ، اور اکاؤنٹنگ کے کاموں کے لئے استعمال ہوتے تھے۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ، انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو وسیع کیا اور اب وہ نئی ٹیکنالوجیز، مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence )، تحقیق و ترقی، سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ، اور بہت سے دیگر اعلیٰ سطح کے تخلیقی کاموں میں مصروف ہیں۔ آپ کو یہ پڑھ کر تعجب ہو گا کہ انڈیا میں اسوقت 1500 سے زیادہ GCCs ہیں اور لگ بھگ 100 ارب ڈالر یہ ملک ان GCCs سے سالانہ لیز کی مد میں کما رہا ہے اور ہماری حکومت تمام وسائل رکھتے ہوۓ بھی آئ ایم ایف سے 7 ارب ڈالر حاصل کرنے کے لئیے یہ ملک گروی رکھنے کو تیار ہے۔ افسوسناک بات ہے کہ پاکستان میں اب تک کوئی ایک گلوبل کیپیبلٹی سینٹر (GCC) نہیں ہے، خاص طور پر جب ہمارے ہمسایہ مُلک اور دیگر خطوں میں ایسے مراکز کی تعداد اور اہمیت بڑھ رہی ہے۔ ایسے مراکز نہ صرف ملکی معیشت کو فروغ دیتے ہیں بلکہ مقامی ٹیلنٹ کے لیے بھی بہتر روزگار کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔ (سید شایان نے یہ مضمون رئیل اسٹیٹ ریسرچ پورٹل اور تھنک ٹینک SyedShayan.com کے لئیے تحریر کیا)